ایک شیر نے خچر سے پوچھا: تم جنگل کے سب جانوروں سے الگ نظر آتے ہو تمہارے آباو اجداد کون ہیں اور کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا: حضور! میرے ماموں کو نہیں جانتے؟ وہ جو صبا رفتار اور شاہی اصطبل کی آبرو ہے“
گدھا انسان کا سب سے پرانا خادم ہے اس نے دنیا کے تقریباً ہر گوشے میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ موجودہ مشینی دور میں بھی جبکہ نقل و حمل کے وسائل میں عظیم اور حیران کن انقلاب آچکا ہے‘ گدھا بدستور غریبوں کی سواری اور بعض مقامات پر روزگار کا واحد ذریعہ ہے۔
گدھے کا حیوانات کے جس خاندان سے تعلق ہے خاندان کے دوسرے ارکان گھوڑا اور زیبرا ہیں۔ ان کا شمار دودھیل جانوروں میں ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی خطے اور گوشے میں نکل جائیے‘ تپتے ہوئے ریتلے صحراوں‘ بے آب و گیاہ چٹیل میدانوں‘ سنگلاخ اور دشوار گزار پہاڑوں اور جنگلوں تقریباً ہر جگہ آپ گدھا موجود پائیں گے۔
ماہرین حیوانیات کا خیال ہے کہ وادی نیل گدھے کی جنم بھومی میں ہے۔ یہیں سے اس کی نسل ایشیاءپہنچی۔ برطانیہ میں یہ نویں دسویں صدی عیسوی کے بعد داخل ہوا۔ فلسطین میں بعض مقامات پر کھدائی کے دوران گدھے کی تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح پرانی ہڈیاں ملی ہیں۔ انجیل میں جگہ جگہ اس کا ذکر آتا ہے۔ گدھا دو قسم کا ہے جنگلی اور پالتو۔ جنگلی گدھے کو گورخر بھی کہتے ہیں۔ ایک زمانے میں برصغیر پاک وہند اور جنوب مشرقی ایران میں بکثرت پائے جاتے تھے ایران میں تو ان کا وجود تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ 1952ءمیں بھارتی حکومت نے ایک قانون کی رو سے انہیں نایاب جانوروں کی فہرست میں شامل کرلیا تھا۔جنگلی گدھے خوبصورت‘ مضبوط اور توانا ہوتے ہیں مزاج کے لحاظ سے بڑے سرکش اور جنگجو ہیں۔ کیا مجال کسی کو اپنے قریب پھٹکنے دیں۔ 34 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتے ہیں۔ہرش وردھن کے زمانے میں نالندہ یونیورسٹی میں جو طالب علم بداخلاق یا گستاخ ہوتے انہیں بطور سزا گدھے کی کھال پہنا کر شہر میں بھیک مانگنے بھیج دیا جاتا‘ لیکن ماہرین حیوانات کا کہنا ہے گدھا جس نسل کارکن ہے ذہانت‘ طراری اور پھرتی اس کے خصوصی اور نمایاں اوصاف ہیں۔ ماہرین نے اسے ہنس سے بھی زیادہ ذہین اور چالاک قرار دیا ہے۔ یاد رہے جانوروں کی دنیا میں ہنس عقل اور دانشمندی کا پتلا سمجھا جاتا ہے۔ گدھے کی اوسط عمر تیس‘ چالیس برس ہے۔سب سے طویل عمر پانے والا افسانوی گدھا وہ ہے جس کا ذکر انجیل میں اکثر مقامات پر آیا ہے یہ گدھا کائنات کے معرض وجود میں آنے کے چھ دن بعد پیدا ہوا تھا۔ بلعم کے گدھے کے متعلق مشہور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اللہ کی راہ میں اپنے جلیل القدر فرزند حضرت اسماعیل کی قربانی پیش کرنے روانہ ہوئے تو اس پر سوار تھے۔ یہی گدھا بعد میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بیوی بچوں کو مصر واپس لاتا ہے‘ مگر اس کی زندگی کا سنہری دور ابھی آنے والا تھا۔ اس کی پیش گوئی انجیل میں یوں کی گئی: ”خوشی مناو اے دختر صہیون! چلاو اے دختر یروشلم! اپنے بادشاہ کو پہچانو جو تم میں آنے والا ہے۔ امن اور آشتی کا پیامبر اور غریبوں کا نجات دہندہ.... ایک سفید گدھے پر سوار....“ چنانچہ انجیل کی اس حکایت کے مطابق اس گدھے نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بیت المقدس پہنچایا۔ گدھا بار برداری اور سواری کے کام تو آتا ہی ہے‘ انسان پر اس کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس سے خچر پیدا ہوا۔ وہ کہاوت تو آپ نے سنی ہوگی ایک شیر نے خچر سے پوچھا: تم جنگل کے سب جانوروں سے الگ نظر آتے ہو تمہارے آباو اجداد کون ہیں اور کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا: حضور! میرے ماموں کو نہیں جانتے؟ وہ جو صبا رفتار اور شاہی اصطبل کی آبرو ہے“۔ خچر میں ماں اور باپ دونوں کی تمام خصوصیات جمع ہوگئی ہیں۔ استقلال‘ تحمل‘ مستقل مزاجی اور ہر قسم کی آب و ہوا میں بخوبی کام کرنے کی صلاحیت باپ کی طرف سے ورثے میں ملی تو ماں کی طرف سے جسمانی مضبوطی‘ اور طاقت جیسے اوصاف میسر آئے۔کہتے ہیں مشہور رومی ملکہ پوپیا کے خچروں کے زین سونے کے تھے اور شہنشاہ نیرو کے خچروں کے پاوں میں نقرئی نعل جڑے ہوئے تھے۔
گدھے کا چمڑا نہایت کارآمد اور مفید ہے۔ اس میں سختی کے ساتھ ساتھ الاسٹک کی سی لچک اور نرمی بھی پائی جاتی ہے۔ آپ کو یہ سن کر شاید حیرت ہوکہ گدھے کے چمڑے سے اعلیٰ قسم کے پائیدار جوتے‘ ڈھولکیں اور چھلنیاں تیار کی جاتی ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 434
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں